سیّد و سردارِ کُل یا سرورِ والا حَشَم
اِن غلاموں کے لیے اب کیجیے چشمِ کرم
جیسے بھی ہیں آپ کے ہیں، حاضرِ دربار ہیں
کیجیے لُطفِ حسیں رکھ لیجیے سب کا بھرم
اپنی رحمت سے سبھی یہ جھولیاں بھر دیجیے
عرض ہے سن لیجیے فریادِ عاصی محترم
دُور سے آئے ہوئے عشاق ہیں سب نور کے
طُور کے جلوے دِکھا دو اے مِرے شاہِ اُمم
نورِ عالم، رونقِ کون و مکاں بس آپ ہیں
آپ سا آیا کوئی نہ آئے گا ذِی محتشم
دیجیے اپنے رضاؔ کو عِشق ایسا یانبی
بس پڑھے یہ بھی دُرودوں کی دُعائیں دَم بہ دَم