سیّد و سردارِ کُل یا سرورِ والا حَشَم

اِن غلاموں کے لیے اب کیجیے چشمِ کرم

جیسے بھی ہیں آپ کے ہیں، حاضرِ دربار ہیں

کیجیے لُطفِ حسیں رکھ لیجیے سب کا بھرم

اپنی رحمت سے سبھی یہ جھولیاں بھر دیجیے

عرض ہے سن لیجیے فریادِ عاصی محترم

دُور سے آئے ہوئے عشاق ہیں سب نور کے

طُور کے جلوے دِکھا دو اے مِرے شاہِ اُمم

نورِ عالم، رونقِ کون و مکاں بس آپ ہیں

آپ سا آیا کوئی نہ آئے گا ذِی محتشم

دیجیے اپنے رضاؔ کو عِشق ایسا یانبی

بس پڑھے یہ بھی دُرودوں کی دُعائیں دَم بہ دَم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]