شاہ نواب ملا جس کو غسالہ تیرا

ماہ و خورشید پہ ہنستا ہے وہ ذرہ تیرا

اب بھی ازبر ہے اسے چہرۂ زیبا تیرا

دل مرا پڑھتا ہے دن رات قصیدہ تیرا

رات تاریک تھی لمحات تھے صدیوں جیسے

آگئی بادِ صبا نام جو سوچا تیرا

اٹھ نہیں سکتا کہیں اور مرا دست سوال

خوان رحمت سے ترے پاؤں نوالہ تیرا

نکہتیں تیری دماغوں میں بسی ہیں اب بھی

معترف اے گل خوبی ہے زمانہ تیرا

رہبری کرتا ہے ہر راہ پہ آتے جاتے

دل کی دنیا میں چمکتا ہے ستارہ تیرا

روشنی اتنی تو پہلے کبھی دیکھی نہ گئی

چاند ہے یا شہ نواب دریچہ تیرا

میری دنیا ترے کوچے میں سمٹ آئی ہے

اب تو بس میں ہوں گلی تیری ہے کوچہ تیرا

میرے نواب ترے ایک تبسم کے طفیل

خانۂ دل میں بکھرتا ہے اجالا تیرا

اور بھی بانٹنے والے ہیں زمانے میں مگر

منفرد ہے شہ نواب طریقہ تیرا

آتی جاتی ہوئی سانسوں سے تری بات کرے

کس قدر نورؔ کو مرغوب ہے چرچا تیرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]