اردوئے معلیٰ

Search

یہ بارگہِ حضرت نواب علی ہے

اس در کا جو منگتا ہے وہ شاہوں سے غنی ہے

 

اعزاز ہے حاصل تجھے اولاد نبی کا

عظمت کی نشانی یہی اعلیٰ نسبی ہے

 

مل جائے گا سب کچھ ذرا دامن کو پسارو

کس چیز کی ان کے در دولت پہ کمی ہے

 

امواجِ بہارِ درِ نواب کے صدقے

ہر شاخ تمنا مری پھولوں سے بھری ہے

 

کہتے ہیں اسے حضرت نواب کی چوکھٹ

سلطاں بھی جہاں مائل دریوزہ گری ہے

 

فریاد جو تجھ سے نہ کروں، کس سے کروں میں

مشہورِ زمانہ تری فریاد رسی ہے

 

مجھ میں تو ہنر ہی نہیں کچھ جس پہ کروں ناز

یہ تیرا کرم ہے جو مری بات بنی ہے

 

دم ٹوٹ رہا ہے مرا ، بے ربط ہیں سانسیں

آجاؤ خدارا بڑی نازک یہ گھڑی ہے

 

نکہت بھری ہر سمت سے آتی ہیں ہوائیں

کوچہ ہے تمہارا کہ یہ جنت کی گلی ہے

 

تاریخ شہیدان وفا جس سے ہے روشن

وہ رسم محبت ترے کوچے سے چلی ہے

 

جب خاک ترے در کی ہوئی ہے مری مٹی

تب جاکے کہیں نازش اکسیر ہوئی ہے

 

قدموں میں ہی رہنے دے کہ دیوانہ ہوں تیرا

دنیا بھی یہی ہے مری عقبیٰ بھی یہی ہے

 

اے نورؔ مبارک تجھے اس در کی غلامی

یہ دولت کونین ہے جو تجھ کو ملی ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ