شبِ تمنا کے رتجگے میں نئی سحر کا نصاب لکھا

اداس پلکوں پہ نوری چہرے کو دیکھ لینے کا خواب لکھا

وفورِ حیرت سے نارسیدہ رہا ہے پھر بھی خیالِ خامہ

اگرچہ حرفِ نیاز نے اُن کے نام کو بے حساب لکھا

جو تیری نسبت سے بہرہ ور ہے وہ زندگی کی نمودِ کامل

جو دُور ہے اُس کو ہر زماں نے حباب لکھا، سراب لکھا

مَیں جانتا ہوں کہ پھر بھی یہ ایک محض تمثیلِ منفعل ہے

اگرچہ شہرِ کرم کے ذروں کو رشکِ صد ماہتاب لکھا

سوال یہ تھا کہ لائے کیا ہو برائے بخشش، برائے جنت

جواب میں ایک نعت تھی اور نعت میں ہی جواب لکھا

نصابِ عمرِ رواں کے حرفوں کا بس مدینہ رہا ہے محور

کتابِ دل کے ہر ایک صفحے کا ایک ہی انتساب لکھا

جہانِ شعر و سخن میں ویسے تو نُدرتوں کے گُلاب مہکے

وہ ایک خُلقِ عظیم جس کو فقط مجسم کتاب لکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]