اردوئے معلیٰ

Search

شبِ تمنا کے رتجگے میں نئی سحر کا نصاب لکھا

اداس پلکوں پہ نوری چہرے کو دیکھ لینے کا خواب لکھا

 

وفورِ حیرت سے نارسیدہ رہا ہے پھر بھی خیالِ خامہ

اگرچہ حرفِ نیاز نے اُن کے نام کو بے حساب لکھا

 

جو تیری نسبت سے بہرہ ور ہے وہ زندگی کی نمودِ کامل

جو دُور ہے اُس کو ہر زماں نے حباب لکھا، سراب لکھا

 

مَیں جانتا ہوں کہ پھر بھی یہ ایک محض تمثیلِ منفعل ہے

اگرچہ شہرِ کرم کے ذروں کو رشکِ صد ماہتاب لکھا

 

سوال یہ تھا کہ لائے کیا ہو برائے بخشش، برائے جنت

جواب میں ایک نعت تھی اور نعت میں ہی جواب لکھا

 

نصابِ عمرِ رواں کے حرفوں کا بس مدینہ رہا ہے محور

کتابِ دل کے ہر ایک صفحے کا ایک ہی انتساب لکھا

 

جہانِ شعر و سخن میں ویسے تو نُدرتوں کے گُلاب مہکے

وہ ایک خُلقِ عظیم جس کو فقط مجسم کتاب لکھا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ