شجر جو ہوتا تو ہوتی یہ آرزو میری
فضائے شہر مدینہ میں ہو نمو میری
ہے میری روح کا طائر جو عازمِ طیبہ
کہانی کہہ دے گا یہ ان کے رو برو میری
بہاتا ہوں جو میں ان کے فراق میں آنسو
تو آنکھ رہتی ہے اس طرح باوضو میری
ہتھیلیوں پہ ہے روشن چراغ کی صورت
مری دعا جو ہے دراصل آرزو میری
بس اک کرم کی نطر چاہئے سو کر دیجئے
تو کامیاب ہے ہر ایک جستجو میری
ٹھکانہ مانگتی پھرتی ہے ان کے کوچے میں
جو اڑتی پھرتی ہے یہ خاک کو بہ کو میری
انہی کی بات ہے ہونٹوں پہ ہر گھڑی تنوؔیر
انہی کا ذکر ہے ہر لمحہ گفتگو میری