شمیمِ ذوقِ عمل مدتوں سے آئی نہیں

نمودِ عشق ہمالہ، خلوص رائی نہیں

تڑپ رہا ہے یہ دل حاضری کو مدت سے

پہنچ کے روضے پہ رُودادِ غم سنائی نہیں

مجھے نصیب نہیں آفتاب کا پر تو

شبِ سیاہ میں لمعات کی رسائی نہیں

ہم اپنا حال بدلنے کا عزم ہار گئے

اگرچہ کون سی ذلت ہے جو اُٹھائی نہیں

بجا کے ملتِ بیضا کی نسبتیں ہیں وہی

مگر اب اس میں وہ پہلی سی خوش اَدائی نہیں

بدل کے رکھ دوں یہ ماحول اپنی مرضی سے

مرے حضور ! یہ توفیق میں نے پائی نہیں

جو نذر کر کے میسر ہو رَبّ کی خوشنودی

کچھ ایسی کاسۂ اعمال میں کمائی نہیں

پہنچ کے روضۂ انور پہ یہ صبا کہہ دے

’’کہ مجھ کو منزلِ اظہار تک رسائی نہیں‘‘٭

حضور   ہی کی عنایات کی ضرورت ہے

پسند آپ کو بھی میری جگ ہنسائی نہیں

میں آپ اپنے ہی ماحول سے گریزاں ہوں

کہ اس میں درد نوازوں کی اب سمائی نہیں

ہزار طرح کی یاں اختیاط لازم ہے

عزیزؔ مدحتِ آقا، غزل سرائی نہیں!

٭ احمد فرازؔ : ہفتہ قبل ظہر ۳ ؍ ذیقعدہ ۱۴۲۹ھ …۲ ؍ نومبر ۲۰۰۸ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]