شوق اب وحشت میں داخل ہو رہا ہے

خستگی میں لطف حاصل ہو رہا ہے

زخم کھائے دل کی طاقت ہی عجب ہے

سینہِ خنجر بھی گھائل ہو رہا ہے

جس کی غم خواری متاعِ جاں تھی میری

وہ ستم کاروں میں شامل ہو رہا ہے

اک قیامت ٹوٹنے والی ہے سر پر

وہ جفا پر پھر سے مائل ہو رہا ہے

تیرے نقشِ پا کی ہے سب مہربانی

راستہ رشکِ منازل ہو رہا ہے

عشق ہے یا کوئی الہامی صحیفہ

سینہِ عاطفؔ پہ نازل ہو رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]