اردوئے معلیٰ

Search

ملیں گے رہنما ایسا نہیں ہے

کہ الفت راستہ ایسا نہیں ہے

 

جو خود جل کر کرے دنیا کو روشن

یہاں کوئی دیا ایسا نہیں ہے

 

کبھی ان پھول سے ہونٹوں پہ ٹھہرے

ہمارا تذکرہ ایسا نہیں ہے

 

چلو مانا اسے تھی فکر میری

مگر وہ پیار تھا ایسا نہیں ہے

 

کہا میں نے مجھے تم چھوڑ دو گے

مگر اس نے کہا ایسا نہیں ہے

 

وہ اب کیسا ہے یہ مجھ سے نہ پوچھو

کہ اس سے رابطہ ایسا نہیں ہے

 

اسے تکلیف ہو اور میں نہ تڑپوں

ہمارا فاصلہ ایسا نہیں ہے

 

جلا کر آگ میں لوگوں کو، خوش ہو

سنو، میرا خدا ایسا نہیں ہے

 

کوئی موقع اسے دے کر تو دیکھو

کہ عاطفؔ پارسا ایسا نہیں ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ