شکر ہے خداوندا ، انکسار قائم ہے

ہم نیاز مندوں کا اعتبار قائم ہے

ایسے خشک موسم میں ، تیری ہی عنایت سے

گلشنِ تمنا کا کاروبار قائم ہے

شکر ہے میرے مالک ، بھیڑ میں کتابوں کی

اپنے چند لفظوں کا اعتبار قائم ہے

آج بھی مہکتی ہیں اپنے حرف کی کلیاں

آتے جاتے موسم میں یہ بہار قائم ہے

اہلِ دل کی محفل میں ، اہلِ فن کی مجلس میں

اعتبارؔ ساجد کا اعتبار قائم ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]