شہرِ طیبہ کا ہے دیوانہ نہ جانے کب سے
دل کہ ڈھونڈے، وہیں جانے کے بہانے کب سے
اب تو سرکار ! مسلمان پہ ہو چشمِ کرم
میٹ دینے کو ہی درپے ہیں زمانے کب سے
کوئی دیدار کی صورت نکل آئے آقا !
موت بھی تاک میں بیٹھی ہے سرہانے کب سے
اپنے اعمال کی پاداش میں رسوا ہیں سبھی
گا رہے تھے یہ شفاعت کے ترانے کب سے
وہ جو بھولے تھے ترا نقشِ کفِ پا آقا !
ہو چکے نقش بہ دیوار نہ جانے کب سے
یاسیت ہی کی رِدا سر پہ مسلمان کے ہے
عزم کے دیپ بجھا ڈالے ہوا نے کب سے
ہم نے دیکھا ہی نہیں عہدِ درخشاں آقا !
ہم تو اِدبار کے سنتے ہیں فسانے کب سے
ہے نحوست ہی مکافاتِ عمل کی ہر سو
آس کی شمع، لگے آپ بجھانے کب سے
دل تو کڑھتا ہے مگر راہ نہیں ملتی ہے
آ سکا کوئی نہ گرتوں کو اُٹھانے کب سے
استغاثہ یہ مری سمت سے اس قوم کا ہے
جس کی مظلومی پہ روتے ہیں زمانے کب سے
یا نبی ! اب تو ہو تقدیر بدلنے کی دعا
غیر محفوظ ہیں اُمت کے ٹھکانے کب سے
بت پرستوں کی صفوں میں بھی ہے مسلم شامل
مار ڈالا اسے کافر کی ادا نے کب سے
اب عزیزؔ احسنِ مضطر کا مُداوا کچھ ہو!
غل مچا رکھا ہے اس نوحہ سرا نے کب سے
نعت بصورتِ استغاثہ;ہفتہ: ۱۱؍صفر۱۴۳۸ھ… مطابق: ۱۲؍نومبر۲۰۱۶ء