صبحِ بزمِ نو میں ہے یا شامِ تنہائی میں ہے
دل جہاں بھی ہے ترے دستِ مسیحائی میں ہے
عشق کا اعزاز تیرا التفاتِ دم بدم
حُسن کا اعجاز تیری جلوہ فرمائی میں ہے
تیری دہلیزِ عطا پر ہے مدارِ حرف و صوت
نعت کا سارا وظیفہ خامہ فرسائی میں ہے
تیری نسبت ہے کہ مل جاتا ہے مدحت کا شرف
ورنہ کیا ہے جو مرے حرفوں کی زیبائی میں ہے
ایک امرت گھولتی ہے میرے گوشِ شوق میں
کس قدر شیرینی تیرے نُطق و گویائی میں ہے
بننا ہے معراج کی شب کو اسے تزئینِ راہ
آسماں مصروف شوقِ انجم آرائی میں ہے
یہ جہانِ رنگ و بُو بھی تیری سطوت کی نمود
وہ جہانِ تاب و تب بھی تیری دارائی میں ہے
جادۂ ارض و سما ہے تیرے قدموں کی سبیل
وسعتِ کون و مکاں بھی تیری پہنائی میں ہے
ایک آنسو گر ہی جاتا ہے بہ وقتِ خوابِ شوق
حوصلہ اتنا کہاں تیرے تمنائی میں ہے
حرفِ مدحت کی تجلی ہے حرائے فکر پر
دل کا عالَم ہے کہ پیہم شوقِ تنہائی میں ہے
جبر ہے، مقصود اُس شہرِ کرم سے واپسی
ضبط کا سارا سفر کربِ شکیبائی میں ہے