صبح کے آثار میں سے تھا

جب بجھ گیا تو ورثۂ بیکار میں سے تھا

آساں ہوئی ہیں منزلیں، اچھا ہوا لٹا

رختِ سفر کہ جان کے آزار میں سے تھا

خنجر مرا تھا ہاتھ میں اُس کے، سپر مری

نکلا مگر وہ لشکرِ اغیار میں سے تھا

زنداں لگا مجھے تو یہ دورانِ زندگی

سارا نظارہ روزنِ دیوار میں سے تھا

نوکِ قلم سے گر کے کہیں کھو گیا ظہیؔر

اک حرف جو خزینۂ اسرار میں سے تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]