صحرا میں برگ و شجر ، سبزہ اُگانے والے

تیرے محتاج ہیں یہ سارے زمانے والے

کشتیِ اُمتِ سرکار ، بھنور میں آئی

پار اِس کو بھی لگا دے اے تِرانے والے

تیری ہر شے میں ہے اک حُسن نمایاں مولا !

تُو ہی قادر ہے ، دو عالم کو بسانے والے

تیرے جلوؤں سے منور ہوئی دنیا ساری

میرے دل کو بھی سجا دے اے سجانے والے

ہیں وہ فرعون بھی نمرود بھی عبرت کا نشاں

مِٹ گئے خود ہی جو تھے حق کو مِٹانے والے

رب کے احکام سے ہم کیوں ہیں گریزاں آخر

رزق اُسی کا تو یہاں کھاتے ہیں کھانے والے

اب بھی کچھ وقت ہے مولا کی عبادت کرلو !

لوٹ کر آئے ہیں واپس ، کبھی جانے والے

توہی شہ رگ سے بھی نزدیک مرے رہتا ہے

لاج رکھ لینا مری ، دل میں سمانے والے

حمد لکھنا ترے طاہرؔ کو بھی آئی یا رب

شکریہ تیرا ہے اے حمد سکھانے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]