اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر‘ ادیب‘ محقق و نقاد‘مترجم اورماہر لسانیات شان الحق حقی کا یوم وفات ہے

شان الحق حقی(پیدائش: 15 دسمبر 1917ء– وفات: 11 اکتوبر 2005ء)
——
شان الحق حقی اردو زبان کے ممتاز ماہر لسانیات، محقق، نقاد، مترجم اور مدیر تھے۔
شان الحق حقی 15 دسمبر 1917ء کو ہندوستان کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور سینٹ اسٹیفنر کالج (دہلی یونیورسٹی) سے ایم اے (انگریزی ادب) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے کراچی آ گئے۔
آپ مختلف علمی رسائل و جرائد کے مدیر رہے، نیز قومی محکمۂ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی سے منسلک رہے۔ اردو لغت بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ آپ کثیراللسان محقق تھے اور اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جدیدآکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری آپ ہی کی مرتب کردہ ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اخلاق احمد دہلوی کا یوم پیدائش
——
ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں یہ اعزازات ملے
تمغا امتیاز
تمغا قائد اعظم
11اکتوبر2005ء کو آپ کا کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں انتقال ہوا۔
——
شان الحق حقی ، ایک منفرد غزل گوشاعر از ڈاکٹر تنویر حسین
——
جس بڑے آدمی کی تحریریں نظر سے گزری ہوں اور شعر و ادب میں جس ہستی کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہو اس سے ملاقات بھی ایک اہم ادبی واقعے میں شمار ہوتی ہے۔ میں نے شان الحق حقی کی مختلف اصناف پر لاجواب تحریریں پڑھی ہیں۔ ان کی تحریر سے یہ مترشح ہوا کہ شان الحق حقی ہم سب کے محسن ہیں۔ میں اتنی بلند قامت علمی وادبی شخصیت کی ملاقات سے محروم رہ گیا گذشتہ دنوں ان کے فرزند شایان حقی سے ملاقات ہوئی تو میں نے والد صاحب کے لئے برسوں سے جمع کیا ہوا ادب و احترام بیٹے کی نذر کردیا پھر میں نے نہایت احترام کے ساتھ اپنی کتاب پیش کی۔ شایان حقی پائلٹ ہیں اور ایک ائر لائن سے وابستہ ہیں جب میں نے کہا آپ کراچی میں رہتے ہیں تو کہنے لگے ’’ بھئی ! میں تو لاہور میں رہتا ہوں۔‘‘ شایان حقی کی باتوں سے ان کے ادبی ذوق کا علم ہوا۔ شایان حقی بہت نفیس اور خوش اخلاق انسان ہیں۔ میں مضمون میں حقی صاحب کی شاعری پر اظہارِ خیال کرنا چاہتا ہوں۔ حقی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ادبی کارناموں کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ انہوں نے شاعری، افسانہ نگاری، تحقیق و تنقید، لسانیات، لغت تگاری اور مزاح نگاری کے حوالے سے خود کومنوایا۔ حقی صاحب بہت سی زبانیں جانتے تھے۔ خطاطی و خوش نویسی پر بھی انہیں ملکہ حاصل تھا۔ علاوہ ازیں مشرقی و مغربی شعراء کے کلام منظوم تراجم بھی کئے۔
لغت نویسی، لسانیت اور تحقیق وتنقید کے شعبوں میں حقی صاحب نے کا رہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ اس کی گونج ہر سو سنائی دیتی ہے لیکن ان کی شاعری پر بات کم کم سنائی دیتی ہے۔ میں نے حقی صاحب کی غزل کا مطالعہ کیا تو حیران رہ گیا کہ ان کے ہاں موضوعات بھی اچھوتے ہیں اور ان کا اسلوب بھی انفرادی ہے۔
——
چشم نرگس ہی سے آخر پیار کیوں
اہلِ گلشن ہم نہیں بیمار کیا
——
یقیں کب تھا کہ لکھا تھا مقدر ہی میں یوں ہونا
بڑی مشکل سے سیکھا ہے تمناؤں نے خوں ہونا
وہ خالی سی نظر میں رفتہ رفتہ بات سی پیدا
وہ سادہ سی ادا کا دھیرے دھیرے پُرفسوں ہونا
——
گلہ نہیں مجھے سیلاب سے تباہی کا
مرامکان ہی کچا تھا اور نشیب میں تھا
جواب صاف نمایاں جبیں سے تھا اس کی
ابھی تو شوق کا نامہ ہماری جیب میں تھا
——
یہ بھی پڑھیں : عطاء الحق قاسمی کا یوم پیدائش
——
اردو غزل کی روایت اتنی مضبوط ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ شعراء نے کیسے کیسے مضامین باندھ دیئے پھر کہنے کا ڈھنگ ایسا کہ ’’وہ کہے اور سنا کرے کوئی‘‘ والی کیفیت پیدا ہوجائے۔ اردو غزل کا حسن دامن دل کھینچتا ہے۔ اردو غزل سے قبل فارسی غزل کی ایک عظیم روایت موجودتھی۔ متاثرین میں آغا باباذخانی، عرفی، نظیری، ابوطالب کلیم ، طالب آملی، بیدل کا کلام دیکھئے۔ نزاکت خیال، حسن لطافت اور حسن بیان کے علاوہ نئے نئے مضامین حیرتوں کا سامان پیدا کرتے چلے جائیں گے۔ جب غز ل کی روایت اردو زبان میں منتقل ہوئی تو حاتم و آبرو، میروسودا، انشاومصحفی، ناسخ و آتش اور ذوق و غالب جیسے با کمال شعراء نے اس روایت کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ ہر لحاظ سے اسے انتہائی مضبوط اور شاندار بنا دیا۔ شعر صرف کلام موزوں اور قافیہ بندی کا نام نہیں، اس میں کوئی اورچیز بھی ہونی چاہئے۔ یہ اور چیز شعریت ہوتی ہے۔ شان الحق حقی کے مذکورہ اشعار آپ نے ملاحظہ فرمائے۔ ان اشعار میں ہمیں اردو غزل کی روایت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ان اشعار میں ہر لفظ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑا نظر آتا ہے۔ مذکورہ اشعار پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ حقی صاحب قادر الکلام شاعر ہیں۔ آج کی غزل میں صحافتی انداز در آیا ہے۔ غزل اور حالات حارہ پر مبنی کالم میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔
حسن و عشق غزل کا بہت بڑا موضوع ہے۔ یہ غزل کی روایت بھی ہے ، معاملات حسن و عشق کے مضامین کم و بیش ہر غزل گو شاعر کے ہاں ملتے ہیں۔ حقی صاحب حسن و عشق کے مضامین کو انوکھے انداز میںؒ بیان کرتے ہیں۔
——
فروغ حسنِ خوباں دیر تک مہلت نہیں دیتا
اسی دم آہ اس کی جلوہ سامانی پہ مر مٹیے
——
فیض صاحب نے کہا تھا۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
حقی صاحب نے کس اچھوتے انداز میں غم عشق کی دوستی کا تذکرہ کیا ہے
——
تھے غم جہاں کے تیور کہ ڈرو مرے غصب سے
غمِ عشق کھینچ لایا مجھے دوستی کے ڈھب سے
——
اردو غزل میں محبوب کے ہونٹوں کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے۔ میر نے کہا تھا۔
——
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
——
خواجہ میر درد کہتے ہیں کہ محبوب کے لبوں سے مسیحائی ممکن نہیں
——
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
——
شان صاحب کا خوب صورت انداز دیکھئے
——
ہر بات شگفتہ ہی لگی اس کے لبوں کی
ہر آن شگوفہ سا کھلا اس کے لبوں سے
کچھ بھڑ ک اٹھے گی لو شمع وفا کی
ہرگز نہ بجھے گا یہ دیا اس کے لبوں سے
——
حسن آسودہ صحرا میں ہے آج کل
عشق سرگشتہ آئینہ خانوں میں ہے
——
خود ہی دامن پہ چمک اٹھتا ہے گوہر کوئی
نگہ عشق کو آتی ہے کہاں چھان پھٹک
——
شان الحق حقی کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا دل دردو غم سے لبریز ہے
——
زہر غم پیجئے تو الفاظ میں رس آتا ہے
دل کو خوں کیجئے تو افکار میں جاں آتی ہے
——
نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے
درکار مرے دل کو تھے غم اور طرح کے
——
غم رہا سازگار اپنے لیے
کام تھے بے شمار اپنے لیے
——
یہ بھی پڑھیں : شان الحق حقی کا یوم وفات
——
حقی صاحب کی غزل کے اشعار کی تعداد ا گرچہ زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے یہاں بھرتی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ حقی صاحب کی غزل میں نظم کا سا لطف بھی آتا ہے۔ کسی غزل گو کے لیے غزل کے ہر شعر میں نیا مضمون باندھنا اور قافیہ تلاش کرنا کاردارد ہوتا ہے لیکن حقی صاحب نہایت سہولت سے نیا مضمون باندھ لیتے ہیں اور نیا قافیہ بھی تلاش کر لیتے ہیں اور کمال یہ کہ غزل کا حسن بھی ماند نہیں پڑتا۔ بہت سے غزل گو شاعر نئے تجربات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ حقی صاحب ماہر لسانیات ہیں اس لیے وہ بڑے اعتماد کے ساتھ نئے نئے تجربات کرتے ہیں ۔
——
منتخب کلام
——
دل کا ٹھکانہ ڈھونڈ لیا ہے اور کہاں اب جانا ہو گا
ہم ہوں گے اور وحشت ہو گی ، اور یہی ویرانہ ہو گا
——
تشہیرِ جنوں کہیے یا عرضِ سخں حقیؔ
ارزاں ہیں مرے آنسو ، رسوا ہیں مری آہیں
——
ہم وہی ہیں کہ جہاں بات کسی نے پوچھی
خوش گماں ہو کے لگے داغ دکھانے اپنے
بزمِ یاراں میں وہ اب بات کہاں ہے باقی
روز جاتے ہیں کہیں جی کو جلانے اپنے
——
یہ کس نے کیا یاد کہاں جاتے ہو حقیؔ
کچھ آج تو پڑتے ہیں قدم اور طرح کے
——
مشکل ہے کہ جم جائے ہتھیلی ہی پہ سرسوں
شوخی ابھی سیکھے گی حنا اُس کے لبوں سے
——
ہم اہلِ وفا اُٹھ نہ سکے کُوئے وفا سے
بیٹھے رہے گرتی ہوئی دیوار کے نیچے
یہ بات بھی تہذیبِ گلستاں میں ہے نرگس
بستر نہیں ہوتا کسی بیمار کے نیچے
——
دل پہ گزرے گی اگر جاں پہ گزارا نہ کریں
اے غمِ زیست کہاں تک تری پروا نہ کریں
——
صورت ہی غم کی عہدِ بہاراں بدل گیا
چاکِ جگر سے چاکِ گریباں بدل گیا
——
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے
دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب
درد بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے
کاش اے ابرِ بہاری ترے بہکے سے قدم
میری امیّد کے صحرا میں بھی گاہے جاتے
ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال
ہم بھی ہر لغزشِ مستی کو سراہے جاتے
ہے ترے فتنۂ رفتار کا شہرہ کیا کیا
گرچہ دیکھا نہ کسی نے سرِ راہے جاتے
ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق
کم نگاہی کے لئے عذر نہ چاہے جاتے
لذّتِ درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے
دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ
اور کچھ دن غمِ ہستی سے نباہے جاتے
——
یہ بھی پڑھیں : نہ دوزخ یاد آتا ہے نہ جنت یاد آتی ہے
——
اے دل اب اور کوئی قصہء دنیا نہ سنا
چھیڑ دے ذکر وفا ہاں کوئی افسانہ سنا
غیبت دہر بہت گوش گنہ گار میں ہے
کچھ غم عشق کے اوصاف کریمانہ سنا
کار دیروز ابھی آنکھوں سے کہاں سمٹا ہے
خوں رلانے کے لیے قصہء فردا نہ سنا
دامن باد کو ہے دولت شبنم کافی
روح کو ذکر تنک بخشیء دریا نہ سنا
سنتے ہیں اس میں وہ جادہ ہے کہ دل چیز ہے کیا
سنتے ہیں اس پہ وہ عالم ہے کہ دیکھا نہ سنا
گوئی بے ہوش وہ کیا جس نے کہ ہنگام نوا
کوئی نالہ ہی لب نے سے نکلتا نہ سنا
ہم نشیں پردگئی راز اسے کہتے ہیں
لب ساغر سے کسی رند کا چرچا نہ سنا
کچھ عجب چال سے جاتا ہے زمانہ اب کے
حشر دیکھے ہیں مگر حشر کا غوغا نہ سنا
بڑھ گیا روز قیامت سے شب غم کا سکوت
جسم آدم میں کہیں دل ہی دھڑکتا نہ سنا
نوحہء غم کوئی اس بزم میں چھیڑے کینوکر
جس نے گیتوں کو بھی با خاطر بیگانہ سنا
——
یہ بھی پڑھیں : سنا، دیارِ کا سارا حال مجھے
——
سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی
چراغ جلتے ہیں اور روشنی نہیں آتی
کسی کے ناز پہ افسردہ خاطری دل کی
ہنسی کی بات ہے پھر بھی ہنسی نہیں آتی
نو پوچھ ہئیت طرف و چمن کہ ایسی بھی
بہار باغ میں بہکی ہوئی نہیں آتی
ہجوم عیش تو ان تیرہ بستیوں میں کہاں
کہیں سے آہ کی آواز بھی نہیں آتی
جدائیوں سے شکایت تو ہو بھی جاتی ہے
رفاقتوں سے وفا میں کمی نہیں آتی
کچھ ایسا محو ہے اسباب رنج و عیش میں دل
کہ عیش و رنج کی پہچان ہی نہیں آتی
سزا یہ ہے کہ رہیں چشم لطف سے محروم
خطا یہ ہے کہ ہوس پیشگی نہیں آتی
خدا رکھے تری محفل کی رونقیں آباد
نظارگی سے نظر میں کمی نہیں آتی
بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست
قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی
——
نظر چرا گۓ اظہار مدعا سے مرے
تمام لفظ جو لگتے تھے آشنا سے مرے
رفیقو راہ کے خم صبح کچھ ہیں شام کچھ اور
ملے گی تم کو نہ منزل نقوش پا سے مرے
لگی ہے چشم زمانہ اگرچہ وہ دامن
بہت ہے دور ابھی دست نارسا سے مرے
یہیں کہیں وہ حقیقت نہ کیوں تلاش کروں
جسے گریز ہے اوہام ماورا سے مرے
کسی پہ منت بے جا نہیں کہ سچ یہ ہے
سنور گۓ دل و جاں شیوہء وفا سے مرے
گراں ہیں کان پہ ان کے وہی سخن جو ابھی
ادا ہوۓ بھی نہیں نطق بے نوا سے مرے
کھلا چمن نہ ہوا میں پھر اے نقیب بہار
ابھی تو زخم ہرے ہیں تری دعا سے مرے
نشاط و رنگ کے خوگر مجھے معاف کریں
چھلک پڑے جو لہو ساز خوش نوا سے مرے
——
شعری انتخاب از حرف دل رس ، تارِ پیراہن ۔ مصنف : شان الحق حقی
شائع شدہ 1981ء ، 1983 ء ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات