صد شُکر کہ ہم نعت سے منسوب ہُوئے ہیں

غالب سے سخنور جہاں مغلوب ہُوئے ہیں

جو آپ سے پہلے تھے وہ سب خاص و چُنیدہ

اے ختمِ رسل ! آپ تو محبوب ہُوئے ہیں

وہ چاند ستارے تھے، رہے شب میں فروزاں

اِک مہر کا آنا تھا کہ محجوب ہُوئے ہیں

کیا صُحبت و نسبت کا تھا فیضانِ تغیّر

جو عام تھے وہ خاص سے پھر خُوب ہُوئے ہیں

مدحت کے سُخن زار کے شایاں کہوں جن کو

وہ شعر ہُوئے ہیں نہ وہ اسلوب ہُوئے ہیں

بھیج ان کی طرف پھر سے کوئی خواب مسیحا

جو لوگ ترے ہجر کے مصلوب ہُوئے ہیں

بخشے مجھے سرکار نے بُوصیری کے صدقے

جب حرف، ثنا کے مجھے مطلوب ہُوئے ہیں

لایا ہُوں ترے در پہ، شفاعت کی نظر کر

اعمال کے دفتر مرے معیوب ہُوئے ہیں

مدحت نے نوازے ہیں نئے رنگ کے منظر

موسم مرے حرفوں کے بھی مرطوب ہُوئے ہیں

ممکن ہو تو اب نعت، کوئی خامشی سوچے

مقصودؔ سُخن جتنے تھے، مرعوب ہُوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]