ضبطِ غم توڑ گئی بھیگی ہوا بارش میں

دل کہ مٹی کا گھروندا تھا گرا بارش میں

شادیِ مرگ کو کافی تھا بس اک قطرۂ آب

شہر تشنہ تو اجڑ سا ہی گیا بارش میں

روشنی دل میں مرے ٹوٹ کے رونے سے ہوئی

اک دیا مجھ میں عجب تھا کہ جلا بارش میں

لاج رکھ لی مرے پندار کی اک بادل نے

میرے آنسو نہ کوئی دیکھ سکا بارش میں

کھیت پیاسے تھے اِدھر، اور اُدھر کچے مکان

میں نے دیکھا تو نظر آیا خدا بارش میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]