ضربِ تیشہ سے یوں اعجاز کی صورت جاگے
سینۂ سنگ سے اک موم کی مورت جاگے
ٹوٹ جائے مرے مولا یہ جمودِ شب تار
کوکبِ بخت چمک جائے مہورت جاگے
کاش پڑ جائے مرے غم پہ ہُما کا سایا
شعلۂ درد سے عنقا کسی صورت جاگے
خواہش حرف ستائش کو تھپک دو ورنہ
بن کے اکثر یہ نمائش کی ضرورت جاگے
بے غرض ہو جو تعلّق تو کبھی دل میں ظہیرؔ
نفرتیں شور مچائیں نہ کدُورت جاگے