طیبہ کی ہر گلی کو ، فضا کو ، بہار کو

اے کاش میں بھی دیکھوں نبی کے دیار کو

یارب درِ رسول پہ جانا نصیب ہو

اب مختصر بھی کردے شب انتظار کو

آکر درِ رسول پہ آنکھیں ہیں اشکبار

آ ہی گیا قرار دل بے قرار کو

دے کر دہائی آل پیمبر کی دیکھیے

آقا سنیں گے آپ کے دل کی پکار کو

آقا مجھے بھی سوزنِ رحمت عطا کریں

پوچھے گا کون پیرہن تار تار کو

انجمؔ جو میرے دامن دل کو نصیب ہو

سرمہ بنا لوں خاکِ درِ نامدار کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]