اردوئے معلیٰ

Search
عالمی طرحی مشاعرہ نعت آشنا( حسان بن ثابت ایوارڈ یافتہ کلام)
——
صنعت مرصعہ:( بہ اعتبارِ حروفِ تہجی) تعداد اشعار 47
——

 

الف

 

اللہ نے عزت یوں بڑھائی ترے در کی

قرآں میں قسم اس نے ہے کھائی ترے در کی

 

اولاد سے پہلے مجھے ماں باپ سے پہلے

مقصود ہے سرکار بھلائی ترے در کی

 

ابتر ہے زمانے میں وہی نسل کٹا ہے

رکھے جوذرا دل میں برائی ترے در کی

 

آ

 

آتی نہیں کیوں موت مجھے ہجرِ نبی میں

کیوں جھیل رہا ہوں میں جدائی ترے در کی

 

ب

 

برباد ’’ کرونا ‘‘ نے کیا کارِ معیشت

مظلوم نے زنجیر ہلائی ترے در کی

بھر دی ہے مدینے میں کشش ایسی خڈا نے

مشتاق زیارت ہے خدائی ترے در کی

 

پ

 

پہلے مجھے مولا کاثنا خوان بنایا

وجدان نے پھر سیر کرائی ترے در کی

 

پھوٹیں گے مرے شاخِ عقیدت سے شگوفے

جب ٹھنڈی ہوا جھوم کے آئی ترے در کی

 

ت

 

تا حشر مہکتا ہی رہے گا یہ زمانہ

پھولوں نے جو خوشبو ہے چرائی ترے در کی

 

ٹ

 

ٹوٹی ہوئی ہے ہم پہ ’’ کرونا ‘‘ کی قیامت

حالات نے پھر راہ دکھائی ترے در کی

 

ث

 

ثروت ہے دو عالم کی ترے در کی غلامی

خوش آتی ہے انساں کو گدائی ترے در کی

 

ج

 

جی بھر کے کیا میں نے مواجہ کا نظارہ

یوں حسرتِ دیدار مٹائی ترے در کی

 

جاتے ہی نہیں اڑ کے کہیں دور کبوتر

اک ایک ادا ان کو ہے بھائی ترے در کی

 

جب بر سرِ میزان عمل مرے تلیں گے

اللہ کو میں دوں گا دہائی ترے در کی

 

چ

 

چہرے پہ ملوں گا اسے آنکھوں میں بھروں گا

ہاتھ آئے اگر خاک شفائی ترے در کی

 

ح

 

حسرت سے نکل آئے مری آنکھوں سے آنسو

جب زائروں نے بات سنائی ترے در کی

 

خوابوں سے دکھا کر مجھے گنبد کا نظارہ

دل میں ہے طلب اور بڑھائی ترے در کی

 

د

 

دنیا کا سکندر ہے وہی میری نظر میں

قسمت سے ملی جس کو گدائی ترے در کی

 

دل شاد ہے دل سوز دلدار ہے دلکش

یہ شان یہ شوکت یہ صفائی ترے در کی

 

ڈ

 

ڈالی میں پرو لایا ہوں میں پھول سخن کے

یہ صفت بھی مجھ کو عطا ہوئی ترے در کی

 

ذ

 

ذرے کو بنا دیتی ہے اک آن میں سورج

مشہور ہے خورشید نمائی ترے در کی

 

ر

 

رکھا تری یادوں سے فقط کام جہاں میں

تصویر فقط دل میں بسائی ترے در کی

 

ز

 

زیور ہے ترا نقش قدم میری جبیں کا

پائی ہے مقدر نے رسائی ترے د رکی

 

ژ

 

ژولیدہ و غمگین کبھی ہوتا نہیں میں

افکار میں جلوہ نمائی ترے د رکی

 

س

 

سورج سے بھی افضل ہے ترے شہر کا ذرہ

اورنگِ سلیماں ہے چٹائی ترے در کی

 

ش

 

شہرت کی طلب مجھ کو نہ دولت کی ضرورت

مطلوب مجھے ناصیہ سائی ترے در کی

 

شیدا ہے خداو ند ترے حسن کا آقا

مخلوق خداوند فدائی ترے در کی

 

ص

 

صدیق نے فاروق نے عثماں نے علی نے

تعظیم ہمیں خوب سکھائی ترے در کی

 

ض

 

ضو ریز ہوا میرے مقدر کا ستارہ

پیشانی پہ جب خاک لگائی ترے در کی

 

ط

 

طالب کو تری طلعتِ نورانی ہے مطلوب

دو چند ہے شاہی سے گدائی ترے در کی

 

ظ

 

ظاہر ہے اسے تم نے اجازت نہیں بخشی

کرتا نہیں جو مدح سرائی ترے در کی

ؑ

ع

 

عفو اور سخاوت کی کھلی اس پہ حقیقت

ممنون ہوئی ’’ دخترِ طائی ‘‘ ترے در کی

 

غ

 

غیرت نے مجھے غیر کے آگے نہ جھکایا

غربت نے مجھے راہ سجھائی ترے در کی

 

ف

 

فیضان ترے در کے زمیں زادوں کے اوپر

افلاک پہ بھی فرماں روئی ترے در کی

 

فانوس تخیل سے ہوئی نور کی ترسیل

افکار نے جب شمع جلائی ترے در کی

 

ق

 

قربان میں تصویر مدینہ پہ کہ جس نے

رنگت میری سوچوں پہ چڑھائی ترے در کی

 

ک

 

کس طرح بچھڑتا ہے مدینے سے مسافر

روداد یہ اشکوں نے سنائی ترے در کی

 

گ

 

فرتا نہیں حالات کے قدموں میں کبھی وہ

جس شخص نے خیرات ہے پائی ترے در کی

 

ل

 

لکھوں ترے بچوں کے قصیدے تری نعتیں

کرتا رہوں بس نغمہ سرائی ترے در کی

 

م

 

معلوم ہوئی جن کو ترے در کی فضیلر

پلکوں سے وہ کرتے ہیں صفائی ترے در کی

 

ن

 

نادار کو مسکین کو سینے سے لگانا

یہ ریت پرانی چلی آئی ترے در کی

 

د

 

وہ لمحہء موجود کا نو لہب ہے بے شک

جس شخص نے توقئر گھٹائی ترے در کی

 

ہ

 

ہٹ جائے گی ماحول کے چہرے سے اداسی

جب بادِ صبا لوٹ کے آئی ترے در کی

 

ہوک اٹھتی ہے سینے سے مرے ہائے مدینہ!

منظور نہیں دل کو جدائی ترے در کی

 

ہے ’’ شعرِ نصیر ‘‘ آئینہء عشقِ محمد

کیا خوب ردیف اس نے نبھائی ’’ ترے در کی ‘‘

 

ی

 

یہ دنیا تو دھوون ہے تری نعل کا مولا

کونین کا حاصل ہے کمائی ترے در کی

 

یہ نعت سے نسبت جو ہے مظہر، مری ماں نے

الفت مجھے گھٹی میں پلائی ترے در کی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ