عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں

بذکرِ حور للچایا گیا ہوں

بنی ہے تب مسلماں کی سی صورت

جب انگاروں پہ تڑپایا گیا ہوں

تصور سے بنایا پیکرِ گِل

کہاں تھا میں کہاں لایا گیا ہوں

خودی کی جستجو اللہ توبہ

بہت کھویا تو کچھ پایا گیا ہوں

پریشانی مرے دل کی یہی ہے

خرد کے ساتھ الجھایا گیا ہوں

اُسی صورت اٹھا مٹی میں مل کر

میں کس مٹی کا بنوایا گیا ہوں

نہیں میں واقفِ شہرِ خموشاں

نظرؔ پہلی دفعہ لایا گیا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]