عزیزؔ شہرِ نبی شہرِ آرزو ہے مرا

مگر یہ بُعدِ مکانی بڑا عدو ہے مرا

نبی سے طِیبِ تکلم کی بھیک مانگتا ہوں

اِسی لیے سخنِ نعت مشک بو ہے مرا

اُمیدِ طیبہ رسی منہ نہ موڑنا مجھ سے

اندھیری رات میں واحد چراغ تو ہے مرا

میں خود ہی بے عملی سے ہوا ہوں دشمنِ جاں

جہاں میں اور کوئی شخص کب عدو ہے مرا

حضور ! حالِ دلِ مضطرب لکھوں کیسے

کہ پیرہن ہی خیالوں کا بے رفو ہے مرا

ہنر بھی خام ہے الفاظ بھی خزف ہیں مگر

حضور ! نالۂ دل بھی لہو لہو ہے مرا

یہ عہد لشکرِ شیطاں میں مجھ کو کھینچتا ہے

یقیں بہ فیضِ ثنا اب بھی سرخ رو ہے مرا

زمینِ طیبہ سے اے کاش کہہ سکوں احسنؔ!

کہ نیند میری سہی خواب صرف تو ہے مرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]