اردوئے معلیٰ

Search

عزیزؔ شہرِ نبی شہرِ آرزو ہے مرا

مگر یہ بُعدِ مکانی بڑا عدو ہے مرا

 

نبی سے طِیبِ تکلم کی بھیک مانگتا ہوں

اِسی لیے سخنِ نعت مشک بو ہے مرا

 

اُمیدِ طیبہ رسی منہ نہ موڑنا مجھ سے

اندھیری رات میں واحد چراغ تو ہے مرا

 

میں خود ہی بے عملی سے ہوا ہوں دشمنِ جاں

جہاں میں اور کوئی شخص کب عدو ہے مرا

 

حضور ! حالِ دلِ مضطرب لکھوں کیسے

کہ پیرہن ہی خیالوں کا بے رفو ہے مرا

 

ہنر بھی خام ہے الفاظ بھی خزف ہیں مگر

حضور ! نالۂ دل بھی لہو لہو ہے مرا

 

یہ عہد لشکرِ شیطاں میں مجھ کو کھینچتا ہے

یقیں بہ فیضِ ثنا اب بھی سرخ رو ہے مرا

 

زمینِ طیبہ سے اے کاش کہہ سکوں احسنؔ!

کہ نیند میری سہی خواب صرف تو ہے مرا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ