عمر بھر عشق کسی طور نہ کم ہو آمین

دل کو ہر روز عطا نعمت غم ہو آمین

میرے کاسے کو ہے بس چار ہی سکوں کی طلب

عشق ہو وقت ہو کاغذ ہو قلم ہو آمین

حجرۂ ذات میں یا محفل یاراں میں رہوں

فکر دنیا کی مجھے ہو بھی تو کم ہو آمین

جب میں خاموش رہوں رونق محفل ٹھہروں

اور جب بات کروں بات میں دم ہو آمین

لوگ چاہیں بھی تو ہم کو نہ جدا کر پائیں

یوں مری ذات تری ذات میں ضم ہو آمین

عشق میں ڈوب کے جو کچھ بھی لکھوں کاغذ پر

خود بخود لوح زمانہ پہ رقم ہو آمین

نہ ڈرا پائے مجھے تیرگئ دشت فراق

ہر طرف روشنئ دیدۂ نم ہو آمین

میرؔ کے صدقے مرے حرف کو درویشی ملے

دور مجھ سے ہوس دام و درم ہو آمین

جب زمیں آخری حدت سے پگھلنے لگ جائے

عشق کی چھاؤں مرے سر کو بہم ہو آمین

دشتِ امکاں میں تحیر مرا قائم ہی رہے

میرا ہر ایک قدم پہلا قدم ہو، آمین

میرے کانوں نے سنا ہے ترے بارے میں بہت

میری آنکھوں پہ بھی تھوڑا سا کرم ہو آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]