عید پھیکی لگ رھی ھے، عشق کی تاثیر بھیج

آ گلے مِل یا لباسِ عید میں تصویر بهیج

تیری خُوشبو اور کھنَک مَیں خط سے کرلُوں گا کشید

چُوڑیوں والے حنائی ہاتھ کی تحریر بھیج

دیکھ کر ویران گلیاں خوف آتا ھے مُجھے

اے خُدا ! کوئی گداگر یا کوئی رہگیر بھیج

میری آنکھوں کو نہ دے آدھی ادھوری بخشِشیں

خواب واپس چھین لے یا خواب کی تعبیر بھیج

جاں لبوں پر آگئی ھے آنسُوؤں کے قحط سے

آنکھ بُھوکی مر رھی ھے، غم کے شہدو شِیر بھیج

عید کا تُحفہ یہ کہہ کر اُس نے واپس کردیا

میرے پیروں کے لیے پائل نہیں، زنجیر بھیج

تیری لکّھی قید سے باھر نکلنا ھے مُجھے

کاتبِ تقدیر ! ایسا کر، کوئی تدبیر بھیج

دُوسرے مصرعے کے گہرے راز کو فارس نہ کھول

اس غزل کو چُپکے چُپکے وادئ کشمیر بھیج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]