فراقِ ہستیِ اقدس کا غم رُلا جاتا

وہ جب گزرتے درختوں کو صبر آ جاتا

مرے حضور ہیں رحمت وگرنہ طائف میں

پہاڑ شہر کے اوپر اُلٹ دیا جاتا

جو تھا وہ ابر کا پارہ وہ کاش میں ہوتا

تو چھاؤں چھاؤں ، شتربان دیکھتا جاتا

وہ جس مقام پہ نَعلَین آپ کے گئے ہیں

مجال کیا کہ وہاں کوئی دوسرا جاتا

ادب ہے اتنا کہ پابوسِ مصطفے کے لئے

نہیں ہے خواب کے اندر بھی ، فاصلہ جاتا

جو وقت مڑتا کبھی تھام کر مری انگلی

میں سوئے عرصۂِ سرکار بھاگتا جاتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]