فردوس سی ہے جلوہ نمائی ترے در کی
ہے مسندِ بے مثل چٹائی ترے در کی
سلطان بھی کرتے ہیں گدائی ترے در کی
خالق نے ہے خود شان بڑھائی ترے در کی
بینائی پہ روشن ہوا باطن کا اندھیرا
ان آنکھوں میں جب خاک لگائی ترے در کی
کیا میری مودت کو گرائے مرا دشمن
دیوار ہے یہ سیسہ پلائی ترے در کی
دہلیز پہ جب آتے ہیں کہسار نما سر
ماتھے پہ سجا لیتے ہیں رائی ترے در کی
مکاّر عدو کھاتا ہے منہ کی وہاں شب کو
کرتا ہے حفاظت جہاں بھائی ترے در کی
جی چاہتا ہے پلکوں سے ہاتھ ان کے میں چوموں
دن رات جو کرتے ہیں صفائی ترے در کی
چوکھٹ پہ ترے حسن کے ہیں رنگ نمایاں
ہیں وصف ترے، مدح سرائی ترے در کی
مرغان کی لَے رکھتی ہے داؤدی ترنم
پُر ذوق ہے کیا نغمہ سرائی ترے در کی
ہر حرف سے بہہ نکلے گا دریائے محبت
لفظوں میں اگر لاؤں جدائی ترے در کی