فنا کی رہگزر پہ منزلِ بقا حُسینؑ ھے
یہی ہے قصہ مُختصر ، یزید تھا ، حُسَینؑ ھے
دُکھوں نے پوچھا کون ہے خدائے کائناتِ غم؟
ٹپکتے آنسوؤں نے چیخ کر کہا: حُسَینؑ ھے
کرو گے کتنے قتل اِن نشانیوں کو دیکھ کر؟
کہ آنکھ نم ہے اور زباں پہ وِردِ یا حُسَینؑ ھے
زمانے بھر کے سب غموں کا غمگسار ہے یہ غم
سو درد چاہے جس طرح کا ہو ، دوا حُسَینؑ ھے
تُو مسلکوں کو چھوڑ اور گلے سے لگ یہ سوچ کر
کہ جو ترا حُسَینؑ ھے وہی مرا حُسَینؑ ھے
سوالِ بیعتِ یزید پر جہاں بھی سر جُھکیں
وہاں نہیں نہیں کی گُونجتی صدا حُسَینؑ ھے
بس اتنا یاد رہ گیا دُکھوں کی داستان میں
کہ ابتدا حُسَینؑ تھا اور انتہا حُسَینؑ ھے
بچا لیا برہنگی سے جس نے دین کا بدن
وہی کٹی پھٹی لہو بھری قبا حُسَینؑ ھے
ہزاروں سال بعد بھی وہی الم، وہی کسک
قدیم ہو کے بھی بہت نیا نیا حُسَینؑ ھے