قافیہ ڑ کا ایسا گڑ گیا ہے

پھر قلم اس پہ آکے اڑ گیا ہے

عشق کا کیڑا اس کو ’لڑ ‘​ گیا ہے

قیس لیلیٰ کے پیچھے پڑ گیا ہے

بڑھ گئی جتنی پینٹ کی چستی

دامن اتنا ہی اب سکڑ گیا ہے

ماڈرن ایج میں مودب ہے

لڑکاکچھ آپ کا بگڑ گیا ہے

موچ گردن میں باس کے آئی

پٹھا اس کا کوئی اکڑ گیا ہے

زخم سی سوزن محبت سے

دل کا بخیہ کوئی ادھڑ گیا ہے

خون سارا نکل گیا اس کا

سانس اب دیس کا اکھڑ گیا ہے

بوٹیاں اس کی جیب سے نکلیں

ممتحن ہم کو بھی رگڑ گیا ہے

کیا زبان و بیاں کی بات کریں

جب یہاں سارا کچھ ہی ’’ وڑ‘​‘​ گیا ہے

وہ تو خود سامعین میں سے تھا

کون مظہر پہ ہاتھ جڑ گیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بے اصولی اصول ہے پیارے

یہ تری کیا ہی بھول ہے پیارے کس زباں سے کروں یہ عرض کہ تو پرلے درجے کا فول ہے پیارے واہ یہ تیرا زرق برق لباس گویا ہاتھی کی جھول ہے پیارے تو وہ گل ہے کہ جس میں بو ہی نہیں تو تو گوبھی کا پھول ہے پیارے مجھ کو بلوائیو ڈنر کے […]

مجھ کو رخ کیا دکھا دیا تو نے

لیمپ گویا جلا دیا تو نے ہم نہ سنتے تھے قصۂ دشمن ریڈیو پر سنا دیا تو نے میں بھی اے جاں کوئی ہریجن تھا بزم سے کیوں اٹھا دیا تو نے گا کے محفل میں بے سُرا گانا مجھ کو رونا سکھا دیا تو نے کیا ہی کہنے ہیں تیرے دیدۂ تر ایک نلکہ […]