اردوئے معلیٰ

Search

ایک دن یوں ہُوا وہ ماہِ تمام

ساکنانِ چمن سے محوِ کلام!

 

مجھ کو دیکھو، اے زادگانِ بہار

میں ہوں گردش میں صبح سے تا شام

 

ایک لمحہ نہیں ہے مجھ کو قرار!

دن کو راحت نہ رات کو آرام!

 

میکدے کے رئیسِ اعظم نے

مجھ کو رکھا ہے مستِ موجِ خرام!

 

میرے چلنے سے ہے مدارِ حیات

میری گردش سے روز و شب کا نظام

 

میں بہاتا ہوں رات بھر آنسو

تم نے رکھا ہے شبنم اس کا نام

 

سبزہ و گل پہ چاندنی میری

جیسے جنت میں قدسیوں کے خیام

ق

سارے عالم کے اہلِ دل عاشق

ساری دنیا کے شاعرانِ کرام

 

میری فرقت میں آہیں بھرتے ہیں

میری قربت میں سوچتے ہیں کلام

 

ق

سینۂ شب پہ چاندنی میری

جب اترتی ہے صورتِ اِلہام

 

دشت و کہسار کے صحیفوں پر

لکھتی جاتی ہے چاندنی، پیغام

 

باغ کے مخملیں مُصلّے پر

پیڑ گلشن کے تھے بحالِ قیام

 

ایستادہ تھے ساکت و خاموش

جیسے آقا کے سامنے ہو غلام

 

سُن کے باتیں یہ ماہِ کامل کی

بزمِ گلشن میں مچ گیا کہرام

 

پھول پتے، شجر، ثمر، شاخیں

بن گئے سب کے سب سراپا کلام

 

مل کے کہنے لگے کہ اے مہتاب

مہرِ گردوں کی روشنی کے غلام

 

ذرّہ ذرّہ ہے آفتاب یہاں

تم نہیں جانتے زمیں کا مقام

 

شکلِ احمد میں اُتری دنیا پر

رحمتِ ذوالجلالِ وَالاکرام

 

اُسکی بعثت کے صدقے دی رب نے

ہم کو رعنائی، تم کو خوئے خرام

 

عجز اظہار کے سوا انورؔ

پاس ہے کیا مرے بنامِ کلام

 

ہے روایت مگر قصیدے کی

مطلعٔ خاص بعد مطلعٔ عام

 

احمدِ مجتبیٰ، رسولِ انام

ربِ کعبہ کا آخری پیغام

 

وہ نبی و رسول و پیغمبر

اس کی ہر سانس پر درُود و سلام

 

باغِ عالم کا وہ گلِ آخر

بزمِ کونین کا وہ نورِ دوام

 

خامشی اس کی اعتکافِ صلوٰۃ

گفتگو اس کی ہے اذانِ صیام

 

اس کے قدموں کی دھول ہیں مہ و مہر

وہ شۂ ارض، آسمان خرام

 

ماہ و خورشید، کہکشاں تارے

اس کے رستے کا ہے غبار تمام

 

ربِ کون و مکاں کی جانب سے

اہلِ دنیا کے واسطے انعام

 

میرا ممدوح مطلعٔ انوار

میرا مذکور مصدرِ اکرام

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ