لب پہ شکوہ بھی نہیں، آنکھ میں آنسو بھی نہیں

مجھ سے دل کھول کے لگتا ہے مِلا تو بھی نہیں

اُن کی آنکھوں کے ستارے تو بہت دور کی بات

ہم وہاں ہیں کہ جہاں یاد کے جگنو بھی نہیں

جب سے گردن میں نہیں ہے کوئی بانہوں کی کمان

میرے سینے میں کوئی تیر ترازو بھی نہیں

یا تو ماضی کی مہک ہے یا کشش مٹی کی

ورنہ اُن گلیوں میں ایسا کوئی جادو بھی نہیں

رات کی بات تھی شاید وہ نشہ اور جادو

دن چڑھے رات کی رانی میں وہ خوشبو بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]