لحن سے نعت میں کچھ ایسا اثر آتا ہے
چاند جیسے کوئی آنگن میں اتر آتا ہے
سر جھکائے ہوئے جب کرتا ہوں میں ورد ِ درود
دلِ بے تاب مجھے طیبہ نظر آتا ہے
عشق میں ایڑیاں دل میرا اٹھاتا ہے ذرا
گنبدِ سبز کا دیدار یوں کر آتا ہے
کون کر سکتا ہے یوں عشقِ نبی کا اظہار
چشمِ تر تجھ کو فقط ایسا ہنر آتا ہے
روشنی میرے تخیل میں یوں در آتی ہے
مصرعِ نعت جو واں مثلِ قمر آتا ہے
سبز گنبد کے تلے ایسا سکوں ملتا ہے
جیسے بھولا ہوا ، بھٹکا کوئی گھر آتا ہے
پہلے کرتی ہے مسافر کو معطر خوشبو
اور پھر سامنے سرکار کا در آتا ہے