لرزتے جسم کا بھونچال دیکھنے کے لیے

کب آؤ گے مری دھمّال دیکھنے کے لیے ؟

چلی ھے دھیان کے جادُو نگر میں تیز ھوا

کسی پری کے کھُلے بال دیکھنے کے لیے

چراغ لے کے مَیں پھِرتا ھوں سرد گلیوں میں

ھوائے شب کے خدوخال دیکھنے کے لیے

چھڑک رھا ھوں تری پتّیوں پہ اپنا لہو

سفید پھول ! تجھے لال دیکھنے کے لیے

سُنا ھے جان سے جانا ھے دیکھنا تُجھ کو

نکل پڑا ھوں بہرحال دیکھنے کے لیے

یقین کر کہ تری اِک نگاہ کافی نہیں

ھماری حالتِ بے حال دیکھنے کے لیے

ھنسی ھنسی میں نکل آئے آنکھ سے آنسو

کسی کے ھاتھ میں رُومال دیکھنے کے لیے

نگاہ چاھیئے شفّاف پانیوں جیسی

وہ رُوئے آئنہ تمثال دیکھنے کے لیے

بڑھا رھا ھے ابھی لَو چراغِ بوسہ نُما

ترے دمکتے ھوئے گال دیکھنے کے لیے

کہیں سے لائیے یادوں کا آئنہ ، فارِس

ھمارے بیتے مہ و سال دیکھنے کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]