لِکھ اے قلم! حضورِ رسالت مآب میں

ایک خطابیہ

شاعر

لِکھ اے قلم! حضورِ رسالت مآب میں

اک نعتِ پاک حاصلِ ایماں کہیں جسے

سر بہرِ سجدہ خَم ہو ترا حرف حرف پر

آنکھوں کی کیفیت کہ چراغاں کہیں جسے

جذبے بکھیر دے مرے قرطاسِ نعت پر

ایسی فضا کہ بزمِ فروزاں کہیں جسے

خوشبو طلوع کر، مری سوچوں کی راہ میں

بن جائے صحنِ فکر، گلستاں کہیں جسے

قلم

اے شاعرِ فسردہ مری کیا مجال ہے

اک کاہِ ناتواں ہوں کہ مِثرگاں کہیں جسے

نطقِ بلیغ، عجز کا اظہار سر بسر

آئینہ خیال، کہ حیراں کہیں جسے

نسبت ہے اک جو دیتی ہے البتہ حوصلہ

ورنہ میں کیا ہوں چاکِ گریباں کہیں جسے

خالق نے خود حضور کی مدحت سرائی کی

نعتِ رسولِ پاک ہے قرآں کہیں جسے

جُز اُس کے کائنات میں سوچو تو کون ہے

قبلہ گۂ نگاہ و دل و جاں کہیں جسے

محور، کہ جس کے گرد ہیں ہستی کے مہر و ماہ

نغمہ، کہ نبضِ گردشِ دوراں کہیں جسے

مقصد، کہ ارتقاء ہے اسی سے حیات کا

تخلیقِ کائنات کا عنواں کہیں جسے

بنیاد وہ، کہ جس پہ عمارت ہے دہر کی

اصلِ اصول عالمِ امکاں کہیں جسے

سیرت کہ اعتدال کی واحد مثال ہے

وہ ربط و ضبط، سُورہِ رحماں کہیں جسے

صورت، مسرتوں کی سحر کی نویدِ نور

انسانیت کا مطلعٔ تاباں کہیں جسے

عادت، کہ ربِ کون و مکاں کا ظہور ہو

خُلقِ عظیم، آیۂ قرآں کہیں جیسے

دستِ سخا، کہ کم ہے جو ابرِ کرم لکھیں

لب، اختصار سے بھی گُل افشاں کہیں جسے

لمحہ، کہ جس کے ہر دو کنارے اَزل اَبد

نقطہ، کہ حسنِ و سعتِ دوراں کہیں جسے

وہ رحم دل، کہ خون کے پیاسوں کا مہرباں

وہ چارہ گر، کہ درد کا درماں کہیں جسے

چشمِ کرم اٹھے تو بھرے دامنِ مراد

تسکینِ قلبِ زار کا ساماں کہیں جسے

بچھڑے ملانے والے نگاہِ کرم کی بھیک

کب تک مرا نصیب ہے ہجراں کہیں جسے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]