لے آنکھ موند لی دمِ دیدار، اور حُکم ؟

اے پردہ داریٔ لب و رُخسار! اور حُکم ؟

فرماں تھا آپ کا کہ کروں اپنی سرزنش

میں سر ہی کاٹ لایا ہوں، سرکار! اور حُکم ؟

پہلو میں چاند لایا ہوں ، شیشے میں چاندنی

آوارگانِ قریۂ بیدار! اور حُکم ؟

تُو نے دیا تھا حُکم کہ میں جینا چھوڑ دوں

تعمیل ہو چکی ہے مرے یار! اور حُکم ؟

ضد تھی تری کہ کُھل کے بتاؤں میں دل کی بات

سو کر دیا ہے عشق کا اظہار، اور حُکم ؟

لیں ، رکھ دئیے ہیں آپ کی پاپوشِ پاک پر

دلق و گلیم ، خرقہ و دستار ، اور حُکم ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]