ماہتابی ہیں مرے رنج و محن پانی میں

اشکِ غم ہیں کہ ستاروں کا چمن پانی میں

جن خلیجوں سے گذرتی ہے ضیا دیتی ہے

آپ کے عکس کی ہلکی سی کرن پانی میں

موسمِ گُل میں یہی گل ہیں یہی تارے ہیں

اشکِ پیہم ہیں کہ پانی کی کرن پانی میں

ناخدا حق و اناالحق کی وضاحت کے لیے

بادبانوں کو کہوں دار و رسن پانی میں

ایسی برسات کہاں ایسے کہاں قلزم و یم

کِس نے دیکھا ہے ضیاؔ سیم بدن پانی میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]