مثال سادہ ورق تھا مگر کتاب میں تھا

وہ دن بھی تھے میں ترے عشق کے نصاب میں تھا

بھلا چکا ہے تو اک بار مجھ سے آ کر سن

وہی سبق جو کبھی تیرے دل کے باب میں تھا

جو آج مجھ سے بچھڑ کر بڑے سکون میں ہے

کبھی وہ شخص مرے واسطے عذاب میں تھا

اسی نے مجھ کو غم و سوز جاوداں بخشا

وہ ایک چاند کا ٹکڑا سا جو نقاب میں تھا

مرا وجود مجسم خلوص تھا ناصرؔ

میں پھر بھی بارگہہ حسن کے عتاب میں تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]