مجرمِ ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلا

لطفِ شہ تسکین دیتا پیش یزداں لے چلا

دل کے آئینہ میں جو تصویرِ جاناں لے چلا

محفل جنت کی آرائش کا ساماں لے چلا

رہروِ جنت کو طیبہ کا بیاباں لے چلا

دامنِ دل کھینچتا خارِ مغیلاں لے چلا

گل نہ ہو جائے چراغِ زینتِ گلشن کہیں

اپنے سر میں مَیں ہوائے دشتِ جاناں لے چلا

رُوئے عالم تاب نے بانٹا جو باڑا نور کا

ماہِ نو کشتی میں پیالا مہرِ تاباں لے چلا

گو نہیں رکھتے زمانے کی وہ دولت اپنے پاس

پَر زمانہ نعمتوں سے بھر کے داماں لے چلا

تیری ہیبت سے ملا تاجِ سلاطیں خاک میں

تیری رَحمت سے گدا تختِ سلیماں لے چلا

ایسی شوکت پر کہ اُڑتا ہے پھریرا عرش پر

جس گدا نے آرزو کی اُن کو مہماں لے چلا

دبدبہ کس سے بیاں ہو اُن کے نامِ پاک کا

شیر کے منہ سے سلامت جانِ سلماں لے چلا

صدقے اُس رحمت کے اُن کو روزِ محشر ہر طرف

ناشکیبا شورِ فریادِ اَسیراں لے چلا

ساز و سامانِ گدائے کوئے سرور کیا کہوں

اُس کا منگتا سروری کے ساز و ساماں لے چلا

دو قدم بھی چل نہ سکتے ہم سرِ شمشیر تیز

ہاتھ پکڑے رَبِّ سَلِّمْ کا نگہباں لے چلا

دستگیرِ خستہ حالاں دست گیری کیجیے

پاؤں میں رعشہ ہے سر پر بارِ عصیاں لے چلا

وقتِ آخر نا اُمیدی میں وہ صورت دیکھ کر

دِل شکستہ دل کے ہر پارہ میں قرآں لے چلا

قیدیوں کی جنبشِ اَبرو سے بیڑی کاٹ دو

ورنہ جُرموں کا تسلسل سوئے زنداں لے چلا

روزِ محشر شاد ہوں عاصی کہ پیشِ کبریا

رَحم اُن کو اُمَّتِیْ گویاں و گِریاں لے چلا

شکل شبنم راتوں کا رونا ترا ابرِ کرم

صبحِ محشر صورتِ گل ہم کو خنداں لے چلا

کشتگانِ ناز کی قسمت کے صدقے جایئے

اُن کو مقتل میں تماشائے شہیداں لے چلا

اختر اِسلام چمکا ، کفر کی ظلمت چھنٹی

بدر میں جب وہ ہلالِ تیغِ بُرّاں لے چلا

بزمِ خوباں کو خدا نے پہلے دی آرائشیں

پھر مرے دُولہا کو سوئے بزمِ خوباں لے چلا

اللہ اللہ صرصرِ طیبہ کی رنگ آمیزیاں

ہر بگولا نزہتِ سروِ گلستاں لے چلا

قطرہ قطرہ اُن کے گھرسے بحرِ عرفاں ہو گیا

ذرّہ ذرّہ اُن کے دَر سے مہرِ تاباں لے چلا

صبحِ محشر ہر ادائے عارضِ روشن ہیں وہ

شمع نور افشاں پئے شامِ غریباں لے چلا

شافعِ روزِ قیامت کا ہوں اَدنیٰ امتی

پھر حسنؔ کیا غم اگر میں بارِ عصیاں لے چلا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]