مجھے بکھرے بکھرے سے بال یوں بھی پسند ہیں

مجھے ماتمی سے لباس میں نہ ملا کرو

مجھے بے وقوف سمجھ رہا ہے مری طرح

مری بے دھیانی سے فائدہ جو اُٹھا لیا

کسی اُس جہان میں مل کے تجھ سے میں کیا کروں

مرے منتشر سے جہان میں مجھے مل کبھی

مرے خوش گماں تری چاہتوں کے نثار پر

مجھے برملا سی محبتوں پہ یقیں نہیں

مرے زخم ہیں انہیں اپنی ذات سے جوڑ مت

مرے چارہ گر مری حسرتوں سے گریز کر

تری حیرتیں مری چلتی سانس کو دیکھ کر

مرے حوصلے کا طلسم ہے جو اٹوٹ ہے

میں قیام گاہ بنا رہا ترے واسطے

تو یہ کیا ہوا مجھے کیوں بکھیر کے رکھ دیا؟

اسے شاعری کا ادب یہ کس نے سکھا دیا

مری بات بات پہ داد دیتا ہے طنز سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تیری دید چھین کے لے گئی ہے بصیرتیں

تجھے ڈھونڈنا تھا ، چراغ ہاتھ سے گر گیا ترے بعد میرا نصیب ساتھ نہ دے سکا ترے ساتھ ڈالی کمند میں نے نجوم پر تو نے اتنی دور بسا لیا ہے نگر کہ اب تجھے دیکھنے کا غرور خاک میں مل گیا مرے حوصلے کا قصور ہے کہ جو بچ گیا مری سانس سانس […]

اُس نے اتنا تو کرلیا ہوتا

بات بڑھنے سے روک لی ہوتی تیری زلفیں نصیب تھیں ورنہ میں کہیں اور الجھ گیا ہوتا تجھ سے بچھڑے تو ہوگئی فرصت وقت نے کتنی جلد بازی کی میں، مرے زخم، میری تنہائی تجھ سے کس نے کہا ادھورا ہوں آئینے سے تمہارے بارے میں بات کرنا عجیب لگتا ہے بات بے بات چپ […]