محظوظ ہو رہے ہیں وہ کیفِ طہور سے

وابستہ جو ہوئے ہیں ترے شہرِ نُور سے

جب تجھ سے مانگنی ہے شفاعت کی خیرِ کُل

تجھ کو ہی مانگ لیں گے خُدائے غفور سے

ہے اُن کے دستِ ناز میں میری فلاحِ جاں

خوف و خطر نہیں مجھے یومِ نشور سے

کرتا رہے گا عہدِ محمد کا ہی طواف

چھنتا ہُوا جو نُور ہے چشمِ عصور سے

اُن کے لیے ہی مجلسِ میثاق تھی بپا

کُن کا ہُوا ظہور اُنہی کے ظہور سے

رہتی ہے روح گنبدِ خضریٰ کے آس پاس

اِک دوستی سی ہے مری تیرے طیور سے

اے عازمِ مدینہ ! مبارک تجھے، مگر

لے جا سلامِ عجز دلِ ناصبور سے

ویسے تو آنکھ میں ہے وہ شہرِ نظر نواز

دیکھیں تو جیسے دِکھتا ہو احساس دُور سے

تابِ نظر نہیں تھی، مگر ہو گیا کرم

لایا ہُوں روشنی مَیں عطا کے وفور سے

ممکن نہیں حروف سے تخلیق نعت کی

کھِلتا ہے یہ گُلاب، کرم کی مطور سے

مقصودؔ اُن کی نعت کے منظر عجیب ہیں

ہیں ماورا یہ سلسلے حدِ شعور سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]