مدحتِ شاہِ دو عالَم سے معنبر شب و روز

بس وہی ہے مرے باہَر ، مرے اندر شب و روز

وہ جو گزرے تھے ترے کوچۂ رحمت میں کبھی

بخدا وہ تھے کوئی عرصۂ دیگر شب و روز

کیا خبر کب سرِ امکاں کوئی مژدہ چمکے

دیکھتا رہتا ہوں تقدیر کے اختر شب و روز

ساعتِ جبر میں محصور وظیفہ ہے حیات

چھوڑ آیا ہُوں میں جب سے ترے در پر شب و روز

تُو جو چاہے تو انہیں ہست کا عنواں دے دے

نیست ملبوس ، طلب رفتہ ہیں ، بے گھر شب و روز

سبز منقوش حوالوں سے مزین وہ زماں

خَلق کا اب وہ ابد تک ہیں مقدر شب و روز

بس ترے نام سے جُڑتے ہیں ، جُڑے رہتے ہیں

بس تری نعت سے مربوط ہیں یکسر ، شب و روز

وہ شب و روز جنہیں اذن ہُوئے خواب کے رنگ

حاصلِ زیست ہیں اور زیست سے بڑھ کر شب و روز

سینچتے ہیں تری نسبت کے تناظر سے نمود

کھینچتے ہیں تری تمدیح کا منظر شب و روز

آنکھ کو ساعتِ طلعت میں نہیں حاجتِ دید

جلوۂ وصل سے پہیم ہیں منور شب و روز

وہ جنہیں نعت کی نسبت کا حوالہ ہے نصیب

میری قسمت میں ہیں مقصودؔ وہ خوشتَر شب و روز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]