مدحت ہو تری کیسے کہ دشوار بیاں ہے

محدود مری سوچ تو محدود زباں ہے

جب سے ہے مرا رابطہ اُس شاہِ اُممؐ سے

پُرنور مرا دل ہے، منور مری جاں ہے

طیبہ میں رہوں موت اُسی شہر میں آئے

بس اِک یہی ارمان مرے دل میں نہاں ہے

ڈھلنے لگے جذبات مرے نعت کی صورت

ہے ذکر ترا اور مرے اشکوں سے رواں ہے

اِک لمحہ مجھے چین نہ تسکین نہ آرام

آقاؐ کی جدائی مجھے کس درجہ گراں ہے

اشعرؔ مری نظروں میں ہے دیدار کا عالم

ہر وقت مرے دل میں زیارت کا سماں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]