مدحت ہو تری کیسے کہ دشوار بیاں ہے
محدود مری سوچ تو محدود زباں ہے
جب سے ہے مرا رابطہ اُس شاہِ اُممؐ سے
پُرنور مرا دل ہے، منور مری جاں ہے
طیبہ میں رہوں موت اُسی شہر میں آئے
بس اِک یہی ارمان مرے دل میں نہاں ہے
ڈھلنے لگے جذبات مرے نعت کی صورت
ہے ذکر ترا اور مرے اشکوں سے رواں ہے
اِک لمحہ مجھے چین نہ تسکین نہ آرام
آقاؐ کی جدائی مجھے کس درجہ گراں ہے
اشعرؔ مری نظروں میں ہے دیدار کا عالم
ہر وقت مرے دل میں زیارت کا سماں ہے