مدینہ دیکھتے ہیں اورکہاں کھڑے ہوئے ہیں

مدینہ دیکھتے ہیں اور کہاں کھڑے ہوئے ہیں

ہماری آنکھ کو کیا کیا ہنر ملے ہوئے ہیں

بصد ادب ہے یہ عرضِ جہانِ دیدہ و دل

حضور آئیے سب راستے سجے ہوئے ہیں

ہمارا کچھ بھی نہیں قاسمِ ضیا کی قسم

لویں جلائی گئی ہیں تو ہم دئیے، ہوئے ہیں

وجودِ خواب لپٹنے لگا ہے رنگوں میں

ہوائے طیبہ نے منظر نئے بُنے ہوئے ہیں

ہمیں سنورنا ہے ہمدوشِ آسماں ہو کر

نگاہ کیجئے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں

حضور آپ کی رہ ہے رہِ نشاط و نجات

ہمِیں بُرے ہیں مصائب میں جو گِھرے ہوئے ہیں

کرم میں ان کے تیقن کا جو شجر ہے میاں

اسی کی شاخ پہ پھل پھول بھی لگے ہوئے ہیں

ہرا درخت ہے جنت کا ، جیسے گنبد بھی

تبھی تو اس کے پرندے بڑے سجے ہوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]