مدینہ دیکھے بنا ہی کہیں نہ مر جائیں

گدائے عشق چلو آؤ ان کے در جائیں

اٹھائے بوجھ گناہوں کا اپنے کاندھوں پر

شکستہ پا ہی سہی لے کے چشمِ تر جائیں

صبا تو گنبدِ خضرا پہ عرض کردینا

ہمیں بھی اذن ملے رحمتوں کے گھر جائیں

تو اس سے بڑھ کے سعادت بھی اور کیا ہوگی

نصیب نعت کے صدقے میں جو سنور جائیں

درود پاک کی برکت ہے یہ سفینے کو

ادب سے راستہ دیتے ہوئے بھنور جائیں

ہزار شکر عطا اس طرح حضورؐی ہو

نصیب ہو وہی مٹی وہیں پہ مر جائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]