مرا دل تڑپ رہا ہے

کوئی قافلہ چلا ہے

یہی ایک التجا ہے

ترا شہر مُدعا ہے

مری خلوتوں میں روشن

ترے نام کا دیا ہے

مرے رت جگوں کا حاصل

تری مدحت و ثنا ہے

ترا ذکر روشنی ہے

ترا نام رہنما ہے

کبھی مجھ پہ مہرباں ہو

وہ خوشی جو اب خفا ہے

تری اک نظر کے صدقے

مرا کام بن گیا ہے

یہ فضا مہک اٹھی ہے

گلِ نعت یوں کِھلا ہے

یہ زمین بھی نئی ہے

یہ خیال بھی نیا ہے

ترا نام لکھ رہا ہوں

یہ کرم نہیں تو کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]