مرا دل تڑپ رہا ہے
کوئی قافلہ چلا ہے
یہی ایک التجا ہے
ترا شہر مُدعا ہے
مری خلوتوں میں روشن
ترے نام کا دیا ہے
مرے رت جگوں کا حاصل
تری مدحت و ثنا ہے
ترا ذکر روشنی ہے
ترا نام رہنما ہے
کبھی مجھ پہ مہرباں ہو
وہ خوشی جو اب خفا ہے
تری اک نظر کے صدقے
مرا کام بن گیا ہے
یہ فضا مہک اٹھی ہے
گلِ نعت یوں کِھلا ہے
یہ زمین بھی نئی ہے
یہ خیال بھی نیا ہے
ترا نام لکھ رہا ہوں
یہ کرم نہیں تو کیا ہے