مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں!

مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں

مرے گمشدہ مرے پاس آ، میں اداس ہوں

کسی وصل میں بھی بقائے سوزشِ ہجر ہے

غمِ عاشقی ذرا دور جا، میں اداس ہوں

میں منڈیرِ درد پہ جل رہا ہوں چراغ سا

مری لو بڑھا مجھے مت بجھا، میں اداس ہوں

مرے حافظے کا یہ حال وجہ ملال ہے

مرے چارہ گر مجھے یاد آ، میں اداس ہوں

ترا مسکرانا زوال ہے مرے درد کا

یونہی بات بات پہ مسکرا، میں اداس ہوں

مرے لب تھے زینؔ کسی دعا سے سجے ہوئے

مجھے لگ گئی کوئی بددعا، میں اداس ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]