مرے نصیب میں محفل کی میزبانی ہے

مجھے خبر ہے کہ اْسی نے غزل سنانی ہے

فقیر لوگ تھے دریا اٹھا کے لے آئے

اگرچہ اس نے کہا تھا کہ آگ لانی ہے

یہ لڑکھڑانا کوئی لڑکھڑانا تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں ہزیمت کسے اٹھانی ہے

یہ کیا کہ آنکھ بیاں کر رہی ہے حالِ دل

یہ ترجمانی بھلا کوئی ترجمانی ہے

اگر یقین ہے تجھ کو مری محبت کا

تو کس لیے تری باتوں میں بدگمانی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]