مرا خود سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہو رہا
ترا آئینہ ، مرا آئینہ نہیں ہو رہا
ترے ہجر میں ابھی ایک شب بھی کٹی نہیں
کہ گمان بھی مجھے جینے کا نہیں ہو رہا
کوئی خواب رکھ کے چلا گیا مری آنکھ میں
مجھے جاگنے کا بھی حوصلہ نہیں ہو رہا
میری اکھڑی اکھڑی جو سانس تھی ، وہ تو چل پڑی
تو بحال کیوں مرا حافظہ نہیں ہو رہا
میں نے جرم ِ عشق کا اعتراف تو کر لیا
تو یہ کس لیے مرا فیصلہ نہیں ہو رہا