مشعلِ حرف لئے نور بکف ہو جائیں

کاش ہم اپنے زمانے کا شرف ہو جائیں

عقل کہتی ہے چلو ساتھ زمانے کے چلیں

ظرف کہتا ہے کہ ہم ایک طرف ہو جائیں

دل یہ کہتا ہے ترا نام اُتاریں دل میں

اور کسی گہرے سمندر میں صدف ہو جائیں

حیف وہ جنگ کہ دونوں ہی طرف ہوں اپنے

ہائے وہ لوگ جو خود اپنا ہدف ہو جائیں

کشتیاں اپنی جلائی ہیں عدو نے اِس بار

اب تو لازم ہے کہ ہم جان بکف ہو جائیں

معرکہ کوئی بھی مشکل تو نہیں، اہلِ حرم

توڑ کر دائرے گر شامل صف ہو جائیں

ڈر رہا ہوں کہ یہ اوراقِ شب و روز مرے

یوں نہ ہو عہدِ ضرورت میں تلف ہو جائیں

کون زحمت کرے پھر شمعیں جلانے کی ظہیرؔ

جب سیہ رات کے شکوے ہی شغف ہو جائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]